علم کی ترویج۔۔ قومی ترقی کا راز ہے

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

اس کائنات میں انسان اللہ کی نیابت اور خلافت کا اعزاز رکھتا ہے اور انسان کو باری تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں اشرف اور افضل بنایا ہے اور احسن تقویم کا شرف عطا کیا ہے۔ اس کائنات میں انسان کی نیابت، خلافت اور فضیلت کی بنیاد، علم ہے۔ اس تصور پر یہ آیت کریمہ مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّهَا.

(البقرة، 2: 31)

’’اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے۔‘‘

آدم علیہ السلام کو ملائکہ اور جنات پر فضیلت، علم کی بنیاد پر عطا کی گئی۔ اسی علم کو انسان کا شرف بنایا گیا اور اسی علم کو انسان کے امتیاز کا سبب بنایا گیا اور یہی علم انسان کی خلافت الہٰی کی بنیاد بنا ہے اور یہی علم انسان کی ترقی کا ہر دور میں راز بنا ہے اور یہی علم انسان کی دنیوی ترقی اور معاشرتی بلندی اور قومی عظمت کی نشانی بنا ہے اور اسی علم نے انسان کو انفرادی سطح پر بھی ترقی دی ہے اور اسی علم نے انسان کو اجتماعی سطح پر بھی عظمت اور سربلندی دی ہے اور یہی علم ہر دور میں قوموں کی ترقی کا ایک راز مسلسل رہا ہے اور یہی علم عصر حاضر میں سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد ہے۔ آج اقوام مغرب کی ترقی کا راز سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم ہے۔ اسی علم کو حاصل کرنے کی اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہر دور میں ترغیب دی ہے۔ پہلی وحی قرآن ہی حصول علم کی ترغیب دیتی ہے۔

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ. خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ. الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمْ.

(العلق، 96: 1تا5)

’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کے ہر ہر فرد کے لئے تحصیل علم کو فرض قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

طلب العلم فريضة علی کل مسلم ومسلمة.

’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

اطلبوا العلم من المهد الی اللحد.

’’پنگھوڑے سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو‘‘۔

آیئے اب ہم قرآن حکیم کو آیات کی روشنی میں اس بات پر غور کرتے ہیں کہ قرآن کا تصور علم کیا ہے۔ قرآن کس چیز کو علم سے تعبیرکرتا ہے۔ کونسا عمل، قرآن کے نزدیک علم ٹھہرتا ہے۔ علم کی حقیقت کیا ہے اور علم کی ماھیت کیا ہے، علم کا وظیفہ کیا ہے، انسان کا کون سا قول علم کی بنیاد بنتا ہے اور انسان کا کون سا عمل، علم کی علامت بنتا ہے؟ سورہ الانعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْآ.

(الانعام، 6: 91)

’’اور تمہیں وہ کچھ سکھایا گیا ہے جو تم نہ جانتے تھے‘‘۔

اس آیت کریمہ کی رو سے علم نہ جانی ہوئی چیزکو جاننا ہے۔ علم کسی چیز کا ادراک کرنا ہے۔ علم کسی چیز کو پالینا ہے، علم کسی چیز کا فہم حاصل کرنا ہے۔ علم سیکھنے اور سکھانے کا نام ہے، علم یہ ہے کہ جو قول کہا جائے وہ سمجھ میں آئے تو وہ قولِ علم ہے۔ اس سلسلے میں سورۃ النساء میں باری تعالیٰ نے فرمایا:

حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ.

(النساء، 4: 43)

’’یہاں تک کہ وہ بات سمجھنے لگو جو تم کہتے ہو‘‘۔

گویا کوئی قال کا عمل کرے کوئی یقول کا وظیفہ اپنائے کوئی قُلْتُ اور اَقُوْلُ کی صورت میں بولے غرضیکہ قول کی جو بھی صورت ہو وہ سمجھ میں آئے تو علم ہے اور سمجھ و فہم میں نہ آئے تو وہ بس قول ہی ہے وہ علم نہیں۔ گویا قرآن کہہ رہا ہے تم وہ بات کہو جس میں علم ہو تمہارے کہنے سے لوگ جان جائیں تو وہ علم ہے اور جو کہا جائے مگر وہ علم نہ دے تو وہ محض کہنا ہی ہے۔ وہ علم نہیں ہے۔ علم وہی ہے جو سمجھ میں آئے۔ اس لئے سورہ بقرہ میں فرمایا:

مِنْم بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَهُمُ يَعْلَمُوْنَ.

(البقره، 2: 75)

’’پھر اسے سمجھنے کے بعد (خود) بدل دیتے حالاں کہ وہ خوب جانتے تھے (کہ حقیقت کیا ہے اور وہ کیا کر رہے ہیں)‘‘۔

قرآن کہتا ہے کہ علم، حقیقت کو جاننا ہے۔ علم حق کو پانا ہے۔ قرآن کے نزدیک علم سچ کو جاننا ہے اور علم صداقت کو پہچاننا ہے۔ علم انسان کا حق شناس ہونا ہے۔ اس لئے سورہ البقرہ میں ارشاد فرمایا:

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.

(البقره، 2: 42)

’’اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ‘‘۔

گویا اظہار حق کا نام علم ہے۔ حقیقت کا انکشاف علم ہے۔ حقانیت کا اظہار علم ہے، حق کو باطل سے الگ کرنا اور باطل سے حق کا امتیاز کرنا، علم ہے۔ اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ.

(البقره، 2: 26)

’’وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ان کے رب کی طرف سے حق ہے‘‘۔

جب انسان علم کے ذریعے حق کو جان لیتا ہے تو پھر وہ تنازعات نہیں اٹھاتا وہ جھگڑے نہیں کرتا، وہ فساد نہیں مچاتا، وہ فتنہ بپا نہیں کرتا اور وہ ظلم نہیں کرتا۔ یہ ساری برائیاں نہ جاننے کی ہیں۔ حقیقت علم سے لاتعلقی کی ہیں، علم نہ ہو تو انسان فساد مچاتا ہے اور فتنے کو فروغ دیتا ہے۔ اس لئے سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا:

فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِيْمَا لَيْسَ لَکُمْ بِهِ عِلْمٌ.

(آل عمران، 3: 66)

’’مگر ان باتوں میں کیوں تکرار کرتے ہو جن کا تمہیں سرے سے کوئی علم ہی نہیں ہے‘‘۔

علم فتنے کو مٹاتا ہے اور جھگڑے کو سرد کرتا ہے اور تنازعات کا خاتمہ کرتا ہے۔ علم وہ ہے جو انسان کی ضرورت کو پورا کرے۔ جو انسان کی حاجات کی تکمیل کرے۔ علم وہ ہے جو انسانی مصالح کی حفاظت کرے۔ علم وہ ہے جو انسان کے مفادات کا تحفظ کرے۔ علم وہ ہے جو انسان کی بقا کا ساماں کرے۔ علم وہ ہے جو انسان کی عزت اور عصمت کا تحفظ کرے۔ علم وہ ہے جو انسان کو مشکلات کے بھنور سے نکالے۔ علم وہ ہے جو انسان کی ضروریات کی تکمیل کرے۔ اس لئے سورہ الاعراف میں ارشاد فرمایا:

لِتُخْرِجُوْا مِنْهَآ اَهْلَهَا ج فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ.

(الاعراف، 7: 123)

’’تاکہ تم اس (ملک) سے اس کے (قبطی) باشندوں کو نکال کر لے جاؤ، سو تم عنقریب (اس کا انجام) جان لوگے‘‘۔ (جاری ہے)

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اپریل 2017

تبصرہ