القرآن: اَہلِ بیتِ اَطہار کی محبت واجب ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خصوصی خطاب
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون:محمد ظفیر ہاشمی

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی.

(الشوری، 42: 23)

’’فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘۔

اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں شامل فرمایا اور اپنی بندگی، عبادت اور طاعت کے ساتھ ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے رشتے میں منسلک کیا۔ آقا علیہ السلام کی محبت کے باب میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کچھ مظاہر بنائے ہیں اور اہل بیت اطہار اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی محبت کو اہم ترین مظاہرِ ایمان اور مظاہرِ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شامل فرمایا ہے۔

حضور علیہ السلام نے اپنی قرابت اور اپنی اہل بیت کی محبت کو ہمارے اوپر فرض و واجب قرار دیا ہے اور یہ وجوب مذکورہ حکم الہی سے ثابت ہے۔

حضور علیہ السلام نے تبلیغ رسالت کے ذریعے ہم پر جو احسان فرمایا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے کوئی اجر طلب نہیں فرمایا سوائے اِس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت اور قرابت سے محبت کریں۔ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرابت سے محبت کا جو حکم دیا، یہ اجر بھی آقا علیہ السلام بدلہ کے طور پر اپنے لئے طلب نہیں فرما رہے بلکہ یہ بھی ہمارے بھلے کے لیے ہے۔ اِس سے ہمیں ایمان و ہدایت کا راستہ بتار ہے ہیں، ہمارے ایمان کو جِلا بخش رہے ہیں اور اہل بیت و قرابت کی محبت کے ذریعے ہمارے ایمان کی حفاظت فرما رہے ہیں۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس فرمان کے ذریعے ہماری ہی بھلائی کی راہ تجویز فرما رہے ہیں۔

ہر تفسیر اور ہر مفسر امام قرطبی، امام بغوی، امام نسفی، حافظ ابن کثیر، امام ابن العادل الحنبلی، امام بقائی، امام ہیثمی، عسقلانی، زمحشری، امام سیوطی، امام ابو نعیم، ابن المنذر، ابن الحاتم، طبرانی، ابن حجر مکی، امام احمد بن حنبل، امام بزار، امام شوکانی الغرض جملہ محدثین و آئمہ کی کتب میں احادیث سے بے حساب تائیدات اور آئمہ تفسیر کی تصریحات اس معنی پر ملتی ہیں، جس سے اس معنی پر کوئی شک وشبہ نہیں رہ جاتا۔

اہلِ قرابت کون ہیں؟

اہل بیت کی عظمت و شان میں بہت سی آیات ہیں، مگر اُن کی محبت کا ہم پر فرض ہونا مذکورہ آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے۔ جملہ آئمہ نے اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ اس آیت میں جن کی محبت فرض کی گئی ہے وہ قرابتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

  • حضرت سعید ابن جبیر رضی اللہ عنھما اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضور علیہ السلام سے پوچھا گیا:

يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَوَلَدَاهَا.

(أخرجه ابن أبي حاتم الرازي في تفسيره، 10/ 3276، الرقم/18473)

’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کی قرابت والے وہ کون لوگ ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ، اور اس کے دونوں بیٹے (حسن اور حسین) l‘‘۔

  • امام احمد بن حنبل روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ

لَمَّا نَزَلَتْ: {قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی} (الشوریٰ، 42/23)، قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَمَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلَاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا.

(احمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2: 669، رقم: 1141)

’’جب مذکورہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل قرابت سے کون لوگ مراد ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے رضی اللہ عنہم‘‘۔

یعنی صحابہ کرام کے پوچھنے پر آقا علیہ السلام نے اس آیت مبارکہ کی خود تفسیر کی اور امت پر واضح فرمادیا کہ ان پر کن کن کی مؤدت اور محبت واجب و فرض ہے۔

یہی معنی حضرت ابوالعالیہ التابعی، سعید بن جبیر، ابو اسحاق، عمرو بن شعیب، امام ترمذی، امام احمد بن حنبل، امام حاکم، امام بزار، امام طبرانی الغرض کتب احادیث اور کتب تفسیر میں کثرت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

اس آیت کریمہ کی جملہ تفاسیر پڑھنے کے لیے میری کتاب ’’القول فی القرابۃ‘‘ کا مطالعہ کریں۔ اِس کتاب میں تمام اقوال تفسیری بھی درج ہیں اور ان کی تائید میں تمام احادیث بھی بیان کی گئی ہیں۔

  • آقا علیہ السلام نے فرمایا:

أَحِبُّوا اﷲَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِہ۔ وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اﷲ۔وَأَحِبُّوْا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي.

(جامع ترمذی، ابواب المناقب، 5: 664، رقم: 3789)

یعنی اللہ سے محبت کرو اِس وجہ سے کہ اُس نے تمہیں بے شمار نعمتوں سے مالا مال کیا، وہ تم سے محبت کرتا ہے، تم پر شفقت، بے حساب رحمت، کرم اور لطف و عطاء فرماتا ہے۔ صبح و شام تم اُس کی نعمتوں اور رحمتوں کے سمندوں میں غوط زن رہتے ہو، تم پر اللہ کی نعمتوں کی موسلا دھار بارش رہتی ہے، اِس کی وجہ سے اللہ سے محبت کیا کرو۔

پھر فرمایا:

اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کی وجہ سے، اس لئے کہ اللہ کی محبت میری محبت کے بغیر نہیں ملتی۔ میری محبت ہی اللہ کی محبت کا راستہ، واسطہ، ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ لہذامجھے سے محبت کرو، تاکہ تم اللہ سے محبت کر سکو۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی محبت کا راستہ بتایا ہے۔

اور پھر فرمایا:

میری اہل بیت سے محبت کرو تاکہ تمہیں میری محبت مل سکے۔ میری محبت کے حصول کے لئے میری اہل بیت سے محبت کرو اور اللہ کی محبت کے حصول کے لئے مجھ سے محبت کرو۔

حسنین کریمین سے محبت میں امت کیلئے پیغام

حسنین کریمین رضی اللہ عنھما سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والہانہ محبت کا اظہار فرماتے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین سے محبت کا والہانہ و بے ساختانہ اظہار بغیر کسی مقصد کے تھا؟ نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ اس والہانہ اندازِ محبت میں بھی امتِ مسلمہ کے لئے ایک پیغام ہے۔ آیئے سب سے پہلے ایک حدیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اس میں موجود پیغام پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ

کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَامِلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلٰی عَاتِقِهِ فَقَالَ رَجُلٌ: نِعْمَ الْمَرْکَبُ رَکِبْتَ يَا غُـلَامُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : وَنِعْمَ الرَّاکِبُ هُوَ.

(جامع ترمذی، ابواب المناقب، 5: 661، رقم: 3784)

آقا علیہ السلام ایک روز سیدنا امام حسین کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر چل رہے تھے تو ایک شخص نے دیکھا تو دیکھتے ہی اُس نے کہا اے بیٹے مبارک ہو، کتنی پیاری سواری تمہیں نصیب ہوئی ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں سواری کا اچھا ہونا نظر آرہا ہے مگر یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنا پیارا، خوبصورت اور اعلیٰ ہے۔

یہاں ایک نکتہ کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ حدیث مبارکہ سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ یہ واقعہ گھر کے اندر کا نہیں ہے۔ یعنی گھر کی چار دیواری کا نہیں بلکہ باہر کا ہے، اسی لئے ایک غیر شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عملِ مبارک پر اظہار خیال کررہا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو گلی میں لے کر چل رہے تھے۔

اب ایک طرف آقا علیہ السلام کے مرتبہ، شان، عظمت، جلالت اور قدر بھی ذہن میں رکھیں اور یہ عمل بھی دیکھیں۔ ہم یہ کام نہیں کرتے، اپنا بیٹا ہو، پوتا ہو، نواسا ہو، نواسی ہو، جس سے بہت پیار ہو، اسے کندھے پر اٹھا کر گلی میں نہیں چلتے بلکہ شرماتے ہیں حالانکہ یہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ آقا علیہ السلام نے یہی پیار اگر فقط اپنی ذات تک رکھنا ہوتا تو یہ عمل گھر کے اندر چار دیواری میں کرتے، کندھوں پر بٹھاکر اس طرح گلی میں نہ چلتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل تمام لوگوں کے سامنے کرنا، آقا علیہ السلام کا امام حسین رضی اللہ عنہ سے پیار کرنے کا یہ طرز عمل، وطیرہ اور ادا کا سبب دراصل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو یہ ہے میرے پیار کا عالم حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ۔۔۔ یہ ہے میرا انداز اُن رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے کا۔ لہذا اے امت مسلمہ تم بھی حسنین کریمین رضی اللہ عنھما سے اسی طرح ٹوٹ کر محبت کرنا تاکہ تمہیں اسی واسطہ و وسیلہ سے میری محبت نصیب ہوجائے۔

  • حضرت یعلی العامری روایت کرتے ہیں کہ ہم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت پر گئے۔ گلی سے گزر رہے تھے، راستے میں بچے کھیل رہے تھے اور

وَحُسَيْنٌ مَعَ غِلْمَانٍ يَلْعَب.

اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بھی ان بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ آقا علیہ السلام نے جب امام حسین رضی اللہ عنہ کو کھیلتے دیکھا تو ہر چیز کو نظر انداز کرکے یہ ارادہ کیا کہ دوڑ کر امام حسین رضی اللہ عنہ کو پکڑیں۔

فَطَفِقَ الصَّبِيُّ يَفِرُّ هٰهُنَا مَرَّةً، وَهٰهُنَا مَرَّة.

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں پکڑنے کے لیے دوڑے، امام حسین رضی اللہ عنہ کبھی دوڑ کر اِدھر چلے جاتے اور کبھی دوڑ کے اُدھر چلے جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی انہیں پکڑنے کے لئے کبھی ایک طرف بھاگتے ہیں اور کبھی دوسری طرف بھاگتے ہیں۔ صحابہ کرام اور دیگر لوگ اس منظر کو دیکھ رہے ہیں۔

آقا علیہ السلام حضرت امام حسین کو ہنساتے جا رہے ہیں اور انہیں پکڑنے کے لیے ان کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور انہیں خوش کررہے ہیں۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں پکڑ لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اٹھا لیا، اپنی زبان مبارک اُن تمام صحابہ کے سامنے اُن کے منہ میں ڈال دی۔ پھر انہیں چوما اور چوم کر آقا علیہ السلام نے فرمایا:

حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ۔أَحَبَّ اﷲُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا.

(احمد بن حنبل، المسند، 4: 172)

’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اُس سے محبت کرے اور کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں ایک حقیقت بھی بیان فرمائی اور ایک دعا بھی دی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے، اللہ اُس سے محبت کرتا ہے اور اِس میں آقا علیہ السلام نے دعا بھی کی کہ اللہ اُس سے محبت کر جو میرے حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔

امام احمد بن حنبل اور امام ترمذی اور دیگر آئمہ نے تو اس حدیث کو حدیث صحیح لکھا ہی ہے مگر سعودی عرب میں سلفی مکتب فکر کے نامور عالم محدث علامہ البانی ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے مختلف کتب حدیث کے اوپر تخریجات اور تحقیقات کی ہیں۔ وہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ یعنی اِس حدیث کی صحت کا عالم یہ ہے کہ علامہ البانی جیسے شخص بھی اِس حدیث کے صحیح ہونے کا انکار نہیں کرسکے اور اپنے السلسلہ الصحیحہ میں اِسے درج بھی کیا اور صحیح بھی کہا ہے۔

یاد رکھ لیں! آقا علیہ السلام کا کوئی عمل غیر ارادی نہیں ہوتا۔ لہذا یہ عمل بھی غیر ارادی نہیں ہے، بغیر کسی مقصد کے نہیں ہے۔ اگر اس طرح کا عمل غیر ارادی صادر ہوتا ہو تو ایسا کام ہم کیوں نہیں کرلیتے۔ ہم باہر نکلیں اور ہمارا پوتا، نواسا، پوتی، نواسی، جس سے ہمیں پیار ہے، وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہو اور ہم اپنے دوست احباب کے ساتھ جارہے ہوں تو کیا ہم اُن کو چھوڑ کر، نظر انداز کرکے اس بچے کے ساتھ گلی میں کھیلنے لگ جائیں گے، انہیں پکڑنے کے لئے پیچھے پیچھے دوڑیں گے؟ نہیں، ہم ایسا نہیں کرتے اس لئے کہ ہمیں اپنے مقام و مرتبہ کا خیال رہتا ہے، اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے کہ ہم کیا ہیں۔۔۔؟ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔؟ ہم سوسائٹی کی respectable figure ہیں۔۔۔ honourable figure ہیں۔۔۔ ایک سنجیدہ مزاج شخص ہیں۔۔۔ لوگ ہمارے بارے میں ایک امیج رکھتے ہیں۔ ہم تو اِن چیزوں میںگھرے رہتے ہیں اور یہ کام نہیں کرتے۔ اِس طرح کے کام اگر کرنے ہوں تو گھر کے اندر کریں گے، باہر کوئی نہیں کرتا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آقا علیہ السلام کیوں کر رہے ہیں؟ کیا معاذا للہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غیر ارادی طور پر ایسا فعل صادر ہو جاتا تھا کہ کبھی نماز پڑھا رہے ہیں، صحابہ کرام بھی موجود ہیں، حالتِ نماز میں امام حسین رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر چڑھ جاتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ طویل کر لیتے ہیں، سجدہ سے اٹھتے وقت انہیں اٹھا کر بٹھا لیتے ہیں، پھر چڑھا لیتے ہیں، کیا یہ غیر ارادی فعل ہے۔۔۔؟ کیا اِس عمل سے دین اور ایمان کی کوئی تعلیم اخذ نہیں کی جائے گی۔۔۔؟ کیا اِس سے آقا علیہ السلام کا کوئی پیغام امت کے نام اخذ نہیں کیا جائے گا۔۔۔؟کیا اِس عمل سے آقا علیہ السلام ہم پر کچھ فرض نہیں کرنا چاہ رہے۔۔۔؟ کیا اس عمل مبارکہ سے ہمارے لئے کچھ سنت نہیں بنانا چاہ رہے۔۔۔؟ کیا ہمیں کسی امر کے کرنے کی کوئی نصیحت نہیں فرمانا چاہ رہے۔۔۔؟ کیا اپنا طرز عمل امت کو دکھانا نہیں چاہ رہے۔۔۔؟

اس سوال کا جواب ہمیں اِس فرقہ بندی اور صف بندی سے نکالتا ہے جس نے معاشرے کے لوگوں کے عقائد کو راہ اعتدال سے ہٹا دیا ہے۔

محبتِ اہلِ بیت کسی ایک مسلک کا شعار نہیں

اہل بیت اطہار، حسنین کریمین رضی اللہ عنھما، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی محبت کو ہم نے بدقسمتی سے صرف ایک مکتبہ فکر کا شعار بنا دیا ہے۔ ہمارے اندر ایک inferior complex، ایک جھجک،ایک کمزوری ہے۔ ہمارے ایمان، علم، تحقیق اور معرفت ایمانی میں اتنی کمی آگئی ہے کہ ہم نے محبتِ اہل بیت اور مؤدت حسنین کریمین کو صرف شیعہ مکتبہ فکر کے حصے اور کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ آج بہت سے علماء، خطباء اور ٹی وی پروگرامز، ٹاک شوز اور انٹریوز میں آنے والے، خطابات کرنے والے، عامۃ الناس جن کی پیروی کرتے ہیں، وہ لوگ بھی آج محبتِ اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین و حسنینِ کریمین رضی اللہ عنھما کی بات کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ افسوس! اُنہیں آقا علیہ السلام کی سنت مبارکہ بھول گئی ہے اور اُنہوں نے محبت اہل بیت کو شیعہ مکتبہ فکر کا حصہ اور عقیدہ قرار دے دیا۔یہ طرز عمل بڑی بدقسمتی ہے۔

کیا دیگر مسالک کی ہر بات غلط ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ سوسائٹی انتہاؤں کی طرف جارہی ہے، اعتدال کا راستہ ہم چھوڑتے جارہے ہیں۔ جب سوسائٹی میں عقیدہ اور مسلک باہم متقابل ہو جاتے ہیں، آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور لوگ اپنے اپنے عقیدے اور مسلک میں متعصب ہو جاتے ہیںیا ایک دوسرے کے خلاف انتہا پسند ہو جاتے ہیں تو پھر ہر ایک عقیدہ اور مسلک اپنے خاص شعار و علامت کو بھرپور انداز سے بیان کرتا ہے۔

ہر مسلک کا کوئی نہ کوئی شعار، خاص علامت ہوتی ہے، ہر عقیدے اور مسلک کے لوگ کسی ایک نکتہ کو خوب نمایاں و اجاگر کرتے ہیں، وہ نکتہ اُن کا مرکز nucleus ہوتا ہے۔ دوسرا عقیدہ رکھنے والے چونکہ اُن سے اختلاف رکھتے ہیں لہذا اُن کی ہر بات سے اختلاف کرنا اپنے اوپر واجب کر لیتے ہیں، خواہ وہ حصہ حق ہی کیوں نہ ہو۔ یہ طرزِ عمل بدقسمتی سے تمام مسالک اختیار کئے ہوئے ہیں کہ دوسروں کی نمایاں بات، خاص علامت، شعار الغرض ہر بات سے اختلاف کرنا اپنے اوپر واجب کرلیتے ہیں۔

اِس سے بھی بڑھ کر خطرناک بات یہ ہوئی اور ہو رہی ہے کہ پھر ہر اُس کام سے پرہیز و اجتناب کیا جاتا ہے جو دوسرے مسلک والے کررہے ہیں۔ عامۃ الناس حتی کہ اہل علم بھی اِس تعصب، نادانی، صف بندی، دھڑے بندی اور فرقہ پرستی کی بری فضا کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ سب جان بوجھ کرنہیں بلکہ نادانستگی میں ہو رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں اگرہم نے یہ کام کیا جو شیعہ کر رہے ہیں یا اگر ہم نے یہ کام کیا جو دیو بندی حضرات کر رہے ہیں، دیو بندی سمجھتا ہے اگر ہم نے یہ کام کیا جو بریلوی کہلانے والے اہل سنت کررہے ہیں یا اگر ہم نے یہ کام کیا جو اہل حدیث مکتبہ فکر کے لوگ کر رہے ہیں، اہل حدیث حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے وہ بات کہی جو اہل سنت حضرات یا اہل تشیع حضرات کہہ رہے ہیں تو ہمارے عقیدے و مسلک میں بگاڑ آجائے گا اور ہم اُن میں سے شمار ہونے لگیں گے۔ ہر ایک دوسرے کے بارے میں یہی سوچتا ہے حالانکہ دوسرے مسلک کا ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سو فیصد اُس کی ہر بات غلط یا گمراہی ہے، نہیں، ایسا نہیں ہوتا۔

ہر ایک کے ہاں کچھ چیز درست ہوتی ہیں، کچھ میں لوگ مبالغہ کردیتے ہیں، کچھ میںتفریط کر دیتے ہیں،کچھ میں افراط کر دیتے ہیں، کچھ میں حد سے آگے بڑھ جاتے ہیں، کچھ میں حد سے گھٹ جاتے ہیں، یہ plus،minus ہر کوئی کرتا رہتا ہے،لیکن جوچیزیں نمایاں علامتیں ہو جاتی ہیں، وہ صرف اس مسلک کے ساتھ خاص ہوجاتی ہیں۔ مثلاً لوگ سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے محبت اہل بیت، مؤدت علی و فاطمہ و مؤدت حسنین رضی اللہ عنہم کی بات کی، اگرہم نے شہادت امام حسین اور شہداء کربلا کی بڑھ چڑھ کی بات کی، ان کی عظمت و محبت کی بات کی، تواِس کا فائدہ شیعہ حضرات کو پہنچے گا۔ یہ سوچ نادانستہ، غیرارادی طور پر develop کر جاتی ہے۔

میں اہل سنت میں اس بات کو کثرت سے دیکھتا ہوں کہ وہ بھی محبت اہل بیت کا نام لینے اور اِس پر زور دینے سے کترانے لگے ہیں، گھبرانے لگے ہیں، پیچھے ہٹ گئے ہیں، زبانیں بندہو گئیں ہیں۔ محرم کے مہینہ میں TV پر مختلف پروگرام دیکھنے و سننے کا اتفاق ہوتا ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہم مقصدِ شہادت کی باتیں تو کرتے ہیں، فلسفہ شہادت کو بیان تو کرتے ہیں، حق و باطل کی جنگ کی بات تو کرتے ہیں۔ یہ سب حق اور درست ہے، اسے بھی سمجھانا چاہیے، یہی وہ پیغام ہے، جو اصل شے ہے جس کے لیے امام حسین رضی اللہ عنہ نے شہادت و قربانی دی، اس کا کوئی انکار نہیں، مگر ہمارا طرز عمل، طرز فکر یہ ہو گیا ہے کہ ہم فقط مقصد و فلسفے اور حق وباطل کی جنگ کے پیغام تک محدود رہ جاتے ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر، اُن کی عظمت کا بیان، اُن کی محبت و مودت کی اہمیت کو ہم یکسر فراموش کردیتے ہیں اور اسے بیان کرتے ہوئے ہمارے کلام اور زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔ محبت اہل بیت کی بات کرنے کی ہمیں ہمت نہیں پڑتی کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ یہ شیعہ ہو گیا۔ مودت اہل بیت کی بات زور دار طریقے سے سٹیج پر نہیں کرتے کہ کہیں لوگ یہ نہ کہہ دیں کہ شیعیت کی طرف اِس کا رجحان ہے۔

اگر اس طرح کی سوچ ہر ایک کی ہوجائے تو اُس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم آہستہ آہستہ اپنے دین و ایمان کو اپنے ہی ہاتھوں گنوا بیٹھیں گے۔ اسی طرح اگر آپ توحید کی بات کریں تو کوئی آپ کو کہہ دے گا کہ یہ اہل حدیث اور دیو بندی ہوگیا ہے کیونکہ وہ توحید پر زور زیادہ دیتے ہیں۔ اگر ہم اس سوچ سے توحید کی بات نہ کریں تو اس طرح تو اپنا ایمان بھی ختم کرتے چلے جائیں گے۔ اگر دیوبندی اور اہل حدیث توحید پر زور زیادہ دیتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے؟ توحید برحق ہے، اس کو بیان کرنا چاہئے۔ توحید ایمان کی بنیاد اور ایمان کا پہلا رکن ہے۔ لیکن یہ کیا کہ دوسرے مسلک کے لوگ توحید کی بات بہت کرتے ہیں، لہذا اب ہم توحید کی بات کم کر دیں، اس طرح تو آپ اپنے ایمان کا ستیاناس کریں گے۔ سارے اسلام کی دعوت کا مرکزی نقطہ توحید ہے۔

اسی طرح اگر اہل حدیث حضرات اور دیو بندی مکتبہ فکر کے حضرات یوں سوچنے لگیں کہ ہم اپنے سٹیجوں پر محبت و عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات نہ کریں، زیادہ ادب اور تکریم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات نہ کریں، کیونکہ اس سے دوسرے مسلک والوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اگراِس طرح سوچ کر اِس موضوع کو چھوڑ دیں تواُن کے ایمان کا بیڑا غرق ہوگیا۔ جب محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نکل گئی، عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ رہا، ادب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ رہا، تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ رہی، تو باقی کیا بچ گیا۔ اب ان خطابات، تبلیغوں، دروس قرآن و دروس حدیث کا کیا فائدہ۔

پس اگر ہم یوں سوچنے لگیں تو توحید کو کم کرتے چلے جائیں گے اور وہ اِس طرح سوچنے لگیں تو وہ محبت اورادب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کم کرتے جائیں گے اور نتیجتاً ہم اپنے ایمان کا خود ہی خاتمہ کرتے چلے جائیں گے۔

اسی طرح اہل سنت اہل بیت کا نام اِس لیے نہ لیں کہ شیعہ حضرات کے موقف کو فائدہ پہنچے گا، یا لوگ شیعہ کہیں گے، تو اس طرح اپنے ایمان کا بیڑا غرق کر رہے ہیں، اپنے ایمان کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ یاد رکھیں کہ محبت و مؤدت اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین، محبت و مودت حسنین رضی اللہ عنھما، محبت سیدہ فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا اور مودت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ صرف شیعوں سے منسوب عقیدہ نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں، اسلام اور امت مسلمہ کی میراث ہے۔ یہ ایمان ہے، یہ قرآن کا پیغام ہے، اِس کو قرآن نے تمام مسلمانوں پر فرض کیا ہے۔

آئمہ کرام کی محبتِ اہلِ بیت

  • امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ اہل بیت سے اتنی شدید محبت کرتے اور آئمہ اطہار اہل بیت کی اتنی تکریم کرتے کہ لوگوں نے اُن پر شیعہ ہونے کا طعنہ کیا اور اُن کو شیعہ کہتے۔ اگر محبت اہل بیت کی وجہ سے امام اعظم ابو حنیفہ شیعہ ہو گئے تو پھر سنی کو ن بچا ہے؟
  • امام ابن حجر مکی نے ’’الصواعق المحرقہ‘‘، امام الدمیاطی نے ’’اعانۃ الطالبین‘‘ اور بہت سارے محدثین نے اہل بیت کی محبت کے وجوب کے باب میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ ایک رباعی بیان کی ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں:

يَا أَهْلَ بَيْتِ رَسُوْلِ اﷲِ حُبُّکُمْ
فَرَضٌ مِنَ اﷲِ فِي الْقُرْآنِ أَنْزَلَهُ

کَفَاکُمْ مِنْ عَظِيْمِ الْقَدْرِ أَنَّکُمْ
مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ، لَا صَلَاةَ لَهُ

(ملا علی القاری، مرقاة المفاتيح، 1/ 67)

’’اے اہلِ بیتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ سے محبت کرنا اﷲ کی طرف سے فرض ہے، جسے اس نے قرآن مجید میں نازل کیا ہے اور آپ کے لیے یہ عظیم مرتبہ ہی کافی ہے کہ آپ وہ ہستیاں ہیں کہ جو شخص آپ پر درود نہ پڑھے، اس کی نماز مکمل نہیں ہوتی‘‘۔

ان اشعار میں امام شافعی نے اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو قرآن مجید کی طرف سے امت مسلمہ پر فرض ہونے کو بیان کیا ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ، لَا صَلَاةَ لَهُ کہ جو شخص نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ پڑھے اُس کی نماز نہیںہوتی۔ گویا ہم پر محبتِ اہلِ بیت فرض کردی گئی ہے۔

امام شافعی کو بھی محبت اہل بیت کی وجہ سے لوگ شیعہ اور رافضی کہتے تھے۔ آپ نے جواب میں فرمایا: اگر محبت اہل بیت کا نام شیعہ ہونا ہے تو مجھے یہ تہمت قبول ہے۔ اگر امام شافعی شیعہ ہیں تو پھر باقی سنی کون بچا ہے؟

  • امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت اطہار کے لیے بڑی تعظیم وتکریم تھی۔ سمجھانا یہ چاہتا ہوں کہ محبت و مؤدتِ اہل بیت کسی مکتبہ فکر کی میراث نہیں ہے۔ خدا کے لیے سنی، شیعہ کی جنگ اور صف بندی کی وجہ سے اِس ایمان کے اثاثے کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔

تذکیر بایام اللہ

یاد رکھیں کہ کسی نہ کسی مناسبت و نسبت کی وجہ سے مختلف ہستیوں اور شخصیات کے ایام منانے کا مقصد ان کی محبت کو پھر سے زندہ کرنا اور مزید کمال عطا کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کا یہ مطلب نہیں کہ باقی سارا سال حضور علیہ السلام سے محبت نہ کی جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ پر عمل نہ کیا جائے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے چونکہ ربیع الاول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مقدسہ کا مہینہ ہے، لہذا اس مناسبت سے درود وسلام اور میلاد کی محفلیں ہوتی ہیں، سیرت طیبہ کے بیان ہوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور شان و شوکت کا بیان ہوتا ہے، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اجاگر ہوتی ہے۔

اسی طرح معراج کی رات آتی ہے تو اس رات معراج کی شان و عظمت دل میں جاگزیں ہوتی ہے، بچوں کو پتہ چلتاہے کہ ہماری کیا کیا اہم راتیں ہیں۔

اسی طرح حج کے ایام آتے ہیں، حج تو حاجی لوگ عرفات میں کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ہم پورا مہینہ حج کا تذکرہ اور عرفات اور منی کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ کم سے کم اِس سے یاد تازہ ہوتی ہے، اگلی نسلوںکو پیغام communicate ہوتاہے، ہمارے دل ودماغ میں یاد تازہ ہوتی رہتی ہے، ہم بھولتے نہیں ہیں، تذکیر و تذکر کا اہتمام ہوتا ہے۔ اِسی وجہ سے حکم ہے کہ ایام کویاد کرو۔

اِسی طرح اہل بیت کی محبت تو سال بھر مومن کے دل میں جاگزیں رہتی ہے۔ اس لئے کہ یہ آقا علیہ السلام کی محبت ہی کی شاخ ہے۔ مگر محرم کے مہینے میں امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے خانوادہ کی شہادت اور شہداء کربلا کا تذکرہ کرکے اہل بیت اطہار کی محبت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ اُن سے تعلق جڑتا ہے، قلب اُن کے ساتھ میلان رکھتاہے، اُن کی عظمت کا ایک سبق دھرایا جاتاہے اور اگلی نسلوں کو پیغام دیا جاتا ہے کہ اہل بیت اطہار کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

اسی طرح صحابہ کرام اور خلفاء راشدین کے ایام آتے ہیں۔ اُن کے منانے کا مطلب یہ ہے کہ خلافت راشدہ کا امت مسلمہ پر ایک عظیم احسان ہے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کس طرح دین کے محافظ ہوئے۔۔۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے آقا علیہ السلام کے دین کو کس طرح نظام کے طور پر امت کو عطا کیا۔۔۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنھما کا احسان، اسی طرح مولا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا اس امت پر احسان، ان ایام کو مناکر ہم ان کی خدمات اور احسانات کو یاد کرتے ہیں۔ ان ایام میں ان صحابہ کرام کی عظمت کا سبق تازہ ہوتا ہے، اُن سے محبت پیدا ہوتی ہے، اُن کی عظمت، تکریم اور عزت کا سبق پیدا ہوتا ہے۔ ان اسباب کی بناء پر مختلف ایام کو منایا جاتا ہے۔ ان ایام میں کثرت سے تذکرہ کرتے ہیں تاکہ وہ تذکرہ ان ہستیوں کی دبی اور ختم ہوجانے والی محبت کو پھرسے زندہ کرنے اور جِلا دینے کا باعث بن جائے۔

لیکن افسوس! ہم ایسی صف بندی اور دھڑے بندی کر چکے ہیں کہ ان شخصیات و ہستیوں کے تذکرہ سے گھبرانے لگ گئے ہیں کہ کہیں ہم پر کسی دوسرے مکتبہ فکر و مسلک کی چھاپ نہ لگ جائے۔

اہلِ بیت سے بغض کا تاریخی پس منظر

جس طرح کی تفریق بد قسمتی سے آج محبتِ اہلِ بیت کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں ہے، اس کی ابتداء اس وقت ہوئی جب بنو امیہ اقتدار میں تھے۔ بنو امیہ کے اکثر حکمران اہل بیت سے بغض رکھتے تھے۔ اس کا آغاز یزید کے دورِ حکومت سے ہوا۔ یزید نے ایک نئی طرز پیدا کر دی۔ اُس بدبخت اور ملعون کے زمانہ میں ایک کلچر develop ہوگیا، سارے معاملہ نے سیاسی رنگ اختیار کرلیا، معاملہ Politicize ہوگیا۔ حکومت کے چھوکرے، لونڈے، عمال، انتظامیہ، بیوروکریسی، وزیر، مشیر، سیاسی نمائندگان، جن کو چھوٹی چھوٹی سطح کا اقتدار ملتا ہے، علاقوں میں اُن کے ذمہ داران، یہ تمام اہل بیت اطہار کے خلاف ہر سطح پر ایک ماحول پیدا کرتے اور انہیں گالیاں دیتے تھے۔ سیدنا مولا علی المرتضی اور اہل بیت اطہارکو برا بھلا کہتے۔

حکمران اور ان کے گماشتے چونکہ جان سے مار دیتے تھے، قتل کر دیتے تھے، داڑھی منڈھوا دیتے تھے، کوڑے مارتے تھے۔ بڑے بڑے جلیل القدر تابعین اس ظلم و ستم اور سب و شتم کو دیکھ کر بڑی احتیاط کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو روایت کرتے تاکہ دین امت تک پہنچے۔

حتی کہ سیدنا عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ جو پانچویں خلیفہ راشد کہلاتے ہیں، جب اُن کا دور آیا، تو انہیں یہ قانون نافذکرنا پڑا کہ جو یزید کو امیرالمومنین کہے گا، شرعی طور پہ اُس کو بیس کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو اس حوالے سے مزید سخت اقدامات لینے پڑے۔ آپ نے منبروں پر حضرت مولا علی شیرخدا رضی اللہ عنھما اور اہل بیت اطہار کو گالی دینے کا کلچر حکماً بند کردیا۔ الغرض لوگوں کے ذہن اتنے یکطرفہ اور اتنے زہر آلودہ ہو چکے تھے کہ باقاعدہ احکامات صادر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔

عام نئی نسلیں جس ماحول میں جنم لیتی ہیں، وہ جو کچھ پیدا ہوتے ہی دیکھتے اور سمجھتے ہیں، اسی کو دین سمجھتے ہیں۔ مثلاً روس اور چین کے اندر جب سیکولرازم آیا، تو تین چار نسلیں اس کے اندر گزر گئیں، انہوں نے اسلام نہیں دیکھا تھا۔ جب سے آنکھ کھلی وہ سب کچھ سیکولرازم ہی کو سمجھتے رہے۔ اسی طرح اور بھی دنیا کی کئی جگہیں ایسی ہیں، جہاں ایک عقیدہ مسلط کردیا جاتاہے، تو تین تین چار نسلیں اس میں گزرتی ہیں، اس لئے کہ اُنہوں نے اور کچھ دیکھا ہی نہیں ہے، اصل دین نہیں دیکھا، باپ دادا سے جودیکھا، اسے ہی اصل دین سمجھتے ہیں۔ نتیجتاً اصل تاریخ سے منقطع (cut off) ہو جاتے ہیں۔

اِسی طرح جب حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اہل بیت اطہار کو اور سیدنا مولاعلی المرتضی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے پر پابندی لگادی تو تاریخ کی کتب، اسماء الرجال کی کتب، محدثین کے ہاں یہ درج ہے کہ عامۃ الناس نے شور مچایا کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے سنت بند کردی۔ حالانکہ وہاں سنت سے لغوی معنی مراد ہے کہ وہ ایک طریقہ اور شیوہ جو پرانا چلا آرہا تھا، اس کو ختم کردیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ سنت بند نہیں کی بلکہ جو بند کیا وہ بے ہودگی تھی، دین کے خلاف ایک ماحول تھا، جو بعض لوگوں نے اپنے مفادات کے لئے بنا رکھا تھا تاکہ حکومت سے مراعات لیں لہذا اُس کوبند کیا ہے۔

بنو امیہ کے بعد بنو عباس بھی آئمہ اطہار اہل بیت کو شہید کرتے رہے۔ اُن کو بھی اہل بیت سے خطرہ تھا کہ اِن کی محبت کرنے والے کہیں ہمارا تخت نہ الٹ دیں۔ چونکہ وہ اقتدار میں بھی محبت اہل بیت کے نام پر آئے تھے۔ انہوں نے اہلِ بیت کے نام کا غلط استعمال کیا تھا کہ ہم واقعہ کربلا کا بدلہ لے رہے ہیں۔ وہ اہل بیت کی حمایت میں اٹھے تھے، اہل بیت سے محبت کرنے والی امت کی اکثریت نے اُن کی تائید کی تھی اور وہ بنو امیہ کی حکومت کو ختم کرکے اقتدار میں آئے۔ چونکہ محبت اہل بیت ہی وہ قوت و طاقت تھی جو اُنہیں منصب حکومت پر لائی تھی، لہذا اُن کو پتہ تھا کہ اہل بیت کی محبت کتنی بڑی طاقت ہے۔ پس اِس سے انہیں بھی خطرہ تھا۔ اقتدار پر آجانے کے بعد جب انہیں منزل مل گئی تو جو بھی محبتِ اہل بیت کا نام لیتا، عباسی حکمران اُسے مار دیتے تاکہ ان کا اقتدار مضبوط رہے اور اسے کوئی چیلنج نہ کرسکے۔

لہذا اُس وقت اقتدار کے چھن جانے کے خوف کی بناء پر بنو امیہ کے اوباش لونڈے اہل بیت سے محبت کرنے والوں کو قتل کرتے اور مارتے تھے۔ آج وہ کیفیت نہیں ہے، مگر صف بندی ہے، فرقہ بندی ہے، جس میں لوگ انتہاؤں کی طرف جا رہے ہیں اور خود انتہاء پسندی کی وجہ سے نادانستگی میں حق کو چھوڑ رہے ہیں، ایمان کی دولت سے محروم ہو رہے ہیں۔

قاتلینِ حسین رضی اللہ عنہ کی نشاندہی

آقا علیہ السلام نے قاتلین حسین کی نشاندہی خود فرما دی تھی اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آقا علیہ السلام کا بڑا معجزہ ہے۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیگر پیشین گوئیاں فرمائی ہیں اور آنے والے زمانوں کے حالات اور واقعات بتائے ہیں، اُن میں سے یہ چیز بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والوں کے نام تک سے امت کو آگاہ فرمادیا تھا۔

  • ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

يُقْتَلُ حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی الله عنهما عَلٰی رَأْسِ سِتِّيْنَ مِنْ مُهَاجَرَتِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَزَادَ فِيْهِ: حِيْنَ يَعْلُو الْقَتِيْرُ، الْقَتِيْرُ: الشَّيْبُ.

(أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 105، الرقم/ 2807)

’’حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو میری ہجرت کے ساٹھویں سال کے آغاز پر شہید کر دیا جائے گا‘‘۔

اس حدیث کو امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔ امام دیلمی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: جب ایک (اَوباش) نوجوان ان پر چڑھائی کرے گا‘‘۔

  • میں ایک اور حدیث لوگوں کی توجہ مبذول کروانے کے لیے بیان کررہا ہوں، حضرت عبیدہg روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

لَا يَزَالُ أَمْرُ أُمَّتِي قَائِمًا بِالْقِسْطِ. حَتّٰی يَکُوْنَ أَوَّلَ مَنْ يَثْلِمُهُ. رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَةَ۔يُقَالُ لَهُ يَزِيْدُ.

(ابو يعلی، المسند، 2: 176، رقم: 871)

یعنی میری امت کا نظام، اُس میںدین کا نظام، دین کی قدریں، عدل کے ساتھ چلتی رہیں گی، حتی کہ ایک شخص اقتدار پر آئے گا۔ یہ پہلا شخص جو میرے دین کی قدروں کو پامال کردے گا۔ وہ شخص بنو امیہ میں سے ہوگا۔ اُس کا نام یزید ہوگا۔

آقا علیہ السلام نے تو قیامت تک کی نشانیاں بیان کی ہیں اور واقعہ کربلا تو اُسی صدی کا واقعہ ہے، آقا علیہ السلام اس کی نشانیاں کیوں بیان نہ فرمائیں گے۔ یہ نشانیاں تو آقا علیہ السلام کے اُس حسین رضی اللہ عنہ سے متعلق ہیں جن کو کندھوں پر اٹھا کر چل رہے ہیں اورجن کے لیے کہہ رہے ہیں کہ سواری کی بات نہ کر اے بندے، سوار کی بات کر اور جن کے منہ میں اپنی زبان مبارک دے رہے ہیں، جنہیں فرما رہے ہیں:

حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْن.

یہ تو اُن سے متعلق معاملہ ہے، اِس کی نشاندہی میرے آقا علیہ السلام کیوں نہیں کریں گے؟

طرزِ عمل و فکر میں تبدیلی کی ضرورت

شہادت امام حسین علیہ السلام کی یہ تمام احادیث آقا علیہ السلام کی نگاہ پاک میں اس شہادت اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کی اہمیت کو واضح کررہی ہیں کہ آقا علیہ السلام کی آپ رضی اللہ عنہ سے محبت کتنی ہے اور اِس رتبہ شہادت کا عالم کیا ہے؟ دوسری طرف آج اہل سنت والجماعت کا ہر مکتبہ فکر اور محبت اہل بیت کا نام لینے والے بطور خاص اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ وہ محبت اہل بیت کا کتنا دم بھرتے ہیں؟ شہادت امام حسین کی عظمت کا ذکر کتنا کرتے ہیں کہ جس سے آپ رضی اللہ عنہ کی محبت دلوں میں پیدا ہو؟ جس سے دل امام عالی مقام اور اہل بیت اطہار کی محبت اور مودت کی طرف راغب ہوں؟ یاد رکھیں! ہمارا دین روکھا دین نہیں ہے۔ اُس میں ہر جگہ جہاں ذات آئی ہے وہاں تعلیمات بھی آئی ہیں اور تعلیمات کے ساتھ ذات کو بھی جوڑا ہے۔ ذات سے محبت، ادب، تعلق قلبی، تعلق روحی، تعلق عشقی، ادب اور احترام کا رشتہ ہوتا ہے، دل جھکتے ہیں، اُس سے فیض ملتا ہے، ایمان کی تقویت ہوتی ہے جبکہ تعلیمات عمل، اُسوہ اور سیرت کو سنوارتی ہیں۔ پیغام سے زندگی کا اُسوہ اور طریقہ ملتا ہے، باطل سے ٹکرانے کی جرات ملتی ہے۔ ہر چیز کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے، مگر ہم نے تعلیم اور پیغام پر زور دے کر بڑی عیاری و مکاری یا نادانستگی و نادانی کے ساتھ امام عالی مقام اور شہداء کربلاء معلی اور اہل بیت اطہار کے ساتھ محبت اور مودت کے رشتے کو کمزور کر لیا ہے۔ اُن کا ذکر کرنا، کثرت سے اُن کا بیان کرنا، ہم نے شیعہ حضرات کے کھاتے میں ڈال دیا ہے کہ یہ اُن کا مسلک ہے۔

سوسائٹی میں ایک غلط سوچ پیدا کر دی گئی ہے کہ جو اُن کا بہت ذکر کرے گا وہ شیعہ ہے۔ چونکہ محرم کو وہ اپنے خاص طریقے کے ساتھ مناتے ہیں، اُن کا اپنا طرز عمل، طرز فکر، طریق اور مسلک و انداز ہے، اس کا اہتمام وہ اپنے طریقے سے کرتے ہیں۔ ہم اُس طریق سے نہیں کرتے، ہمارا اپنا عقیدہ و مسلک ہے، ہمارا اپنا اندازہے، ہم اُس طریق سے بعض چیزیں نہیں کرتے جو اہل تشیع اپنے مسلک کے اندر کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ وہ اپنے انداز اور طریق سے شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یاد کرتے اور اہل بیت سے محبت کرتے ہیں لیکن اِس کا مطلب یہ کہاں سے پیدا ہو گیا کہ ہم امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر بھی چھوڑ دیں، شہادت حسین کی عظمت کا بیان ہی چھوڑ دیں، مؤدت و محبت اہل بیت بھی چھوڑ دیں، حسنین کریمین رضی اللہ عنھما کا ذکر اور اُن کی محبت کا تذکرہ ہی چھوڑ دیں کہ کیونکہ یہ شیعہ کرتے ہیں لہذا ہم نہیں کریں گے۔ یہ رویہ کہاں سے آگیا؟ یہ ظلم ہے۔ یہ ایک ایسا عجیب پہلو ہے کہ اِس سے ہم اپنے ایمان اور اُس کی جڑ پر چھری چلا رہے ہیں،اپنے ایمان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

یاد رکھ لیں اہل بیت کی محبت کسی ایک مسلک کا شعار ہے نہ کسی ایک مسلک کی وارثت ہے۔ یہ عین ایمان ہے اور عین اسلام ہے۔ امت مسلمہ کے ساتھ نادانستہ طریقے سے یہ ظلم ہوتا جارہاہے کہ چونکہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مجالس اہل تشیع کرتے ہیں، لہذا جو سنی ہیں، وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر چھوڑ دیں، وہ محبت و مودت اہل بیت کا نام لینا چھوڑ دیں۔ تو کیا محبت حسنین رضی اللہ عنہما، محبت علی رضی اللہ عنہ، محبت فاطمہ رضی اللہ عنہا، مودت اہل بیت، آپ نے ایک مسلک کا ورثہ بنا دیا؟

یہ سوچ خارجیت کا اثر ہے، سنیت نہیں ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر مودت اہل بیت نکل گئی تو آپ ایمان سے محروم ہوگئے۔ محبت اہل بیت نہ رہی تو آپ کا رشتہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کٹ گیا۔ آپ خود ہی ایمان سے محروم ہورہے ہیں۔

بنیادی عقائد تمام مسالک میں مشترکہ ہوتے ہیں:

بنیادی چیزیں کسی ایک مسلک کا شعار نہیں ہوتیں، ہاں اُسے منانے، اُس یاد کو تازہ کرنے کے طریقے ہر مسلک کے جدا جدا ہوتے ہیں۔

ہم جس طریقے سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے ہیں، کچھ اور مسلک کے لوگ اُس انداز سے نہیں مناتے۔ کئی لوگ اپنے ہاں کئی طرح کے مناسک مناتے ہیں، جبکہ دوسرے مسلک کے لوگ وہ مناسک اُس طریق سے نہیں مناتے۔ مختلف مسالک، ملکوں اور سوسائٹی میں مناسک کو منانے کے جدا جدا طریقے ہوتے ہیں۔ اِن طریقوں سے غرض نہیں ہے۔ ہر طریقہ، ہر ایک اہل مسلک اور ہر ایک سوسائٹی، ہر ایک ملک کے ساتھ ہے، میں طریقہ کار کی نہیں بلکہ اس عمل کی روح کی بات کر رہا ہوں۔

میں ٹی وی پر سنتا ہوں کہ اہل سنت علماء امام حسین رضی اللہ عنہ اور شہادت امام حسین کا ذکر کرتے ہیں اور خدا جانے نادانستہ یا دانستہ، عیاری اور مکاری کے ساتھ یا خارجیت کے زیر اثر اِس طرح مقصداور فلسفہ اور حق و باطل کاتذکرہ کرتے ہوئے یوں نکل جاتے ہیں جیسے امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات سے سروکار ہی نہیں، مودت اہل بیت اِن کا موضوع ہی نہیں ہے۔ بے شک مقصد پر آئیں، پیغام دیں کہ حق وباطل کا معرکہ ہے، اسلام کو بچانے کی جنگ امام حسین رضی اللہ عنہ نے لڑی، اُس کے لیے ہم بھی لڑیں مریں، یہ سب اپنی جگہ حق ہے مگر at the same time اِس طرح ذکر کریں تاکہ محبت اہل بیت بھی سینوں اور دلوں میں اجاگر ہو۔

آقا علیہ السلام جب امام حسین کو کندھوں پر بٹھا کر گلی میں نکلتے ہیں اور صحابہ کرام دیکھ رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورپوری گلی میں، مجمع عام، سب کے سامنے زبان مبارک امام حسین رضی اللہ عنہ کے منہ میں ڈالتے ہیں، انہیںچومتے ہیں اور شہر مدینہ کے گلی کوچوں میں اعلان فرماتے کہ حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْن تو اس سے آقا علیہ السلام ایک سنت قائم کر رہے ہیں، امت کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دیکھو میری محبت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیسی ہے۔۔۔ دیکھو میں اہل بیت سے کیسی محبت کرتا ہوں۔۔۔ میںنے تبلیغ دین، تبلیغ رسالت پر کوئی اجر نہیں مانگا سوائے اپنی قرابت کی محبت کے۔۔۔ اور وہ بھی اِس لیے نہیں مانگ رہا کہ حسین رضی اللہ عنہ میرا نواسہ ہے تم اِس سے محبت کرو، کوئی بدلے کے طور پر نہیں مانگ رہا،نہیں، بلکہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرو گے تو تمہارا ایمان بچ جائے گا۔ اِس میں بھی تمہارے ایمان کی فکر کر رہا ہوں۔

میری اہل بیت سے محبت کرو گے تمہارا ایمان بچ جائے گا۔ یہ کشتی نوح ہے، جو اِس میں سوار ہوگیا وہ بچ گیا، جو رہ گیا وہ ڈوب گیا۔ میں اپنی قرابت اوراہل بیت کی محبت اور مودت کی تاکید بھی تمہارے بھلے کے لیے کر رہا ہوں، یہ تمہارے بھلے کے لیے ہے،اِس سے تمسک کروگے، اِس سے لپٹ جاؤ گے توتمہارا اسلام اورتمہارا دین بچ جائے گا۔

منہاج القرآن کا کردار

اس صورت حال میں ضرورت اس امر کی تھی کہ کوئی تو ایسا ہونا چاہیے جواِس وقت پُل (Bridge) کاکام کرے۔ وہ Bridg علیہ السلام کا کام تحریک منہاج القرآن سرانجام دے رہی ہے۔ ہم دو انتہاؤں کی طرف جانے والوں کو جوڑ کر اعتدال اور حق کا راستہ بتا رہے ہیں۔

منہاج القرآن کے علماء، رفقاء کارکنان کی ذمہ داری ہے کہ وہ محبت اہل بیت کو خوب خوب بیان کیا کریں کہ ہم پل Bridge ہیں، ہم سوسائٹی کو انتہاؤں کی طرف جانے سے بچانا چاہتے ہیں۔ لہذااِس فکر میں کبھی نہ ہوں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کا بڑی کثرت سے ذکر ہو گا تو لوگ باتیں کریں گے۔ نہیں، باتیں کرنے والے، تہمت لگانے والے دراصل آپ کو ایمان کی اِس عظیم دولت سے محروم کرنا چاہتے ہیں اور آقا علیہ السلام کی اِس سنت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھیں! اہل بیت اطہار کے ساتھ محبت ہمارے دین کا مرکز nucleus ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

اہل بیت کی محبت سے میری محبت نصیب ہوتی ہے اور میری محبت سے اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے۔

(حاکم، المستدرک، 3: 181،رقم : 4776)

یہ ایک سلسلہ ہے، جو ہمیں محبت الہیٰ تک لے جاتا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں اہل بیت اطہار کی محبت و تمسک عطا فرمائے، اُن کے طفیل آقا علیہ السلام کی محبت تک پہنچائے اور آقا علیہ السلام کی محبت کے صدقے سے اللہ تعالیٰ اپنی محبت عطا کرے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

تبصرہ