تعلیم سب کے لئے۔۔۔۔!

(علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے) الحدیث

اس حدیثِ مبارکہ میں علم حاصل کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے ، مگر ہمارے ملک میں تعلیمی نظام کی اتنی ناقص حالت ہے کہ یہاں علم حاصل کرنا آسان کام نہیں ہے ۔یہاں پیسہ ہے تو تعلیم ہے اگر نہیں تو تعلیم بھی نہیں ۔حکمران بجٹ تو اسمبلیوں میں پیش کر دیا کرتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ اس بجٹ سے کچھ فائدہ بھی ہو گا یا صرف گزارہی چلے گا۔آج کل سوشل میڈیا پر تعلیم کے لئے مختص (جی ، ڈی،پی) کو بڑھانے کی باتیں چل رہی ہیں ۔چند روز پہلے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔اس پوسٹ پر ایک جانب غریب بچے کی تصویر تھی اور دوسی جانب لکھا ہوا تھا میں سکول جانا چاہتا ہوں مگر میرا یہ حق حکمران طبقے نے محدود کر کے رکھ دیا ہے۔اس پوسٹ نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کر دیا۔پاکستان میں تعلیم اور تعلیمی اداروں کی حالت کچھ یوں ہے ،کہ اس وقت ہمارا معاشرہ لا علمی اور انپڑھ لوگوں کی زیادّتی کی وجہ سے ایک لا علم و انپڑ ھ معاشرہ کہلایاجا نے لگا ہے۔ ہمارا ملک جس کو انگریزوں اور ہندوں سے علمی اور خونی لڑائی لڑ کر آزاد کرایا گیا تھا، آج اس ہی ملک میں تعلیم کو فروغ دینے کے اقدامات کا نام و نشان تک نہیں ہے۔الیکشن سے پہلے ساری سیاسی جماعتیں تعلیم، تعلیم کے نعرے تو لگایا کرتیں ہیں مگر اقتدارحاصل ہونے کے بعد اپنے کئے گئے باقی وعدوں کی طرح اس وعدے کو بھی بھلا دیا جاتا ہے۔اس ملک میں جہاں ایک طرف میٹرو بس ، میٹرو ٹرین پر بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ خرچ کر دیا جاتا ہے وہیں دوسری جانب تعلیم پر بجٹ کا ایک تہائی حصہ بھی خرچ نہیں کیا جاتا۔ایک طرف امیر کا بچہ اچھے اور بڑے تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرتا ہے تو دوسری جانب غریب کا بچہ غربت کی وجہ سے میٹرک بھی بڑی مشکل سے سرکاری سکولوں میں کرنے پرمجبور ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ملک میں اچھے تعلیمی اداروں کی کمی ہے ۔ اور اگر کہیں اچھے تعلیمی ادارے موجود ہیں تو ان اچھے تعلیمی اداروں تک رسائی بھی غریب بچے کے لئے ایسے ہے جیسے کہ" پُل صِراتـ ـــ"ـ کو پار کرنا ۔ کیوں کہ ہمارے ملک میں امیر کا سب کچھ ہے غریب کا کچھ بھی نہیں۔ اور ان اداروں کی کمی کی بڑی وجہ سالانہ بجٹ میں دیا جانے والا "جی، ڈی، پی "ہے۔اس وقت ہمارے ملک میں جو اچھے تعلیمی ادارے ہیں وہ زیادہ تر پرائیویٹ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک غریب کا بچہ ان اداروں میں جا نہیں سکتا کیوں کہ پرائیویٹ اداروں کی فیسز اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ایک غریب باپ یا ماں اس فیس کو ادا نہیں کر سکتے۔اور بعض اوقات اگر کسی غریب کا بچہ کسی اچھے پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں علم کے حصول کے لئے داخلہ ہو بھی جائے تو اسکے والدین اسکی فیس نہیں دے پاتے ، جسکی وجہ سے اس ادارے کی طرف سے ان غریب والدین کو ذلیل کیا جاتا ہے اور طرح طرح کی باتیں کر کے اور انکے بچے کو سکول سے نکال دینے کی دھمکی دے کے فیس وصول کی جاتی ہے ۔اور میرے مطابق اس کو یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ غریب والدین سے صاف صاف فیس کی شکل میں بھتہ وصولی کی جاتی ہے۔اوراس فیس کو ادا کرنے کے لئے ان والدین کو اپنا گھر بار بیچ دینا پڑتا ہے اور جگہ جگہ ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔او ر دوسری جانب اگر سرکاری سکولوں کے نظامِ تعلیم کو دیکھا جائے تو وہاں کے حالات اتنے نازک ہیں کہ یا تو استاد سکول نہیں آتے اور اگر آبھی جائیں تو اپنی گپ شپ اور چائے پانی کر ک واپس گھر چلے جاتے ہیں بچوں پر کوئی توّجہ ہی نہیں دی جاتی۔ایسے میں کوئی سرکاری سکول کا بچہ کیسے قوم و ملک کا معمار تو بن پائے گا۔ جب اسکی صلاحیاتوں تو باہر آنے کا موقع ہی نہیں دیا جائے گا ۔اس وقت ہمارے حکمران طبقے اس ملک کی عوام کا پیسا جیسے میٹرو بس و اورنج لائن ٹرین پر خرچ کر رہے ہیں ایسے ہی اگر تعلیم پر بھی خرچ کریں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہاس ملک کے سرکاری سکولوں کا ہر بچہ ملک و قوم کا معمار بن کر سامنے آئے گا۔انشاء اللہ

آیئے اب ایک نظر ڈالتے ہیں گزرے ہوئے سالوں کے بجٹ میں تعلیم کے لئے مختص کئے گئے حصّے کی طرف۔

پاکستان بننے کہ بعد سے لے کر اب تک پاکستان میںتعلیمی نظام کی کشتی بھنور میں پھنسی ہی دکھائی دیتی ہے۔اس بات کی عکاسی مندرجہ بالا تفصیلات سے کی جا سکتی ہے۔

۱-(رواں دورِ حکومت میں اب تک 4سے 5بار بجٹ کی منظوریِ دی گئی ہے اور اس دوران ہر بار تعلیم کے لئے مختص شرح "جی ،ڈی، پی" 2.0% سے لے کر2.5% تک ہی تجاوز کر سکی ہے ۔

۲-(وکی پیڈیا کے مطابق گزشتہ تیس سے چالیس سالوں میں ہمارے ملک میں تعلیم کے لئے مختص (جی،ڈی،پی) 2.8% کے گرد ہی چکر لگاتا چلا آرہا ہے۔

۳)-چندروز قبل برطانوی کمپنی" "Quacquarelli Symonds کی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹ میںپاکستان کواعلیٰ تعلیم کے نظام میں دنیا کا سب سے کمزور ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔جب کے امریکہ کو اعلیٰ تعلیم کے نظام کا سب سے بہترین ملک قرار دیا گیا ہے۔

۴)-اس کمنپی کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں پاکستان کو 50واںرینک دیا گیا ہے اور اسکور زکے لحاظ سے پاکستان کو100میںسے 9.2اسکور دیا گیا ہے۔

جبکہ ہمارے پڑوسی ملک انڈیا کو رینکنگ کے لحاظ سے 24واں رینک اوراسکورز کے لحاظ سے 60.9اسکوارز دیئے گئے ہیں۔اسکی بڑی وجہ انڈیا میں تعلیم پر لگایا جانے والابجٹ کا ایک بڑا حصّہ ہے۔جبکہ پاکستان میں تعلیم پر بجٹ کم اور باقی کاموں پر زیادہ خرچ کیا جاتا ہے ۔

یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ آج تک ہم جس دشمن و پڑوسی ملک کو ہر شعبہ میں مات دیتے آئیں ہیں آج وہی ملک تعلیمی محاذ پر ہم سے کافی آگے نکل چکا ہے۔

وکی پیڈیااور عالمی رپورٹس کے مطابق اگر پاکستان میں تعلیم کے لئے مختص جی ، ڈی ،پی کی شرح کو بڑھا کر 4%تک کر دیا جائے تب پاکستان میں تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا آنے والے بجٹ میں تعلیمی جی،ڈی،پی کی شرح کو بڑھا کر4%تک کیا جاتا ہے یا نہیں ۔

کہتے ہیں کہ بچے ملک کا قیمتی اساسہ ہوتے ہیں ۔آگے چل کہ انہوں نے ہی اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالنا ہوتی ہے۔ مگر جب یہ بچے پڑھیں گے ہی نہیں تو کیسے اس ملک کی باگ دوڑ کو سنبھال سکیں گے۔۔۔! ذرا سوچیئے۔۔!

{۔۔۔روزنامہ تحریک (لاہور)۔۔۔}

تبصرہ