حکمران دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قانون سازی میں سنجیدہ نہیں ہیں، فاروق بٹ

دہشت گردی کے ایشو پر بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس بے سود ثابت ہو چکی ہے

پاکستان عوامی تحریک این اے 48 کے صدر فاروق بٹ نے کہا ہے کہ ملک مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے لیکن سابقہ حکمرانوں نے دہشت گردی پر کوئی پالیسی نہیں بنائی اور موجودہ حکومت بھی اس میں سنجیدہ نظر نہیں آر ہی ہے۔ اور اس اہم ایشو پر اب تک کوئی قانون سازی نہیں کی گئی، قوم غربت تو برداشت کر سکتی ہے لیکن قوم اپنے عزیزوں کی لاشیں نہیں اٹھا سکتی۔ پورے ملک میں قتل و غارت گری کا بازارگرم ہے، بے گناہ انسان مارے جا رہے ہیں، نہ مرنے والے کہ پتہ ہے کہ وہ کیوں مارا جا رہا ہے اور نہ مارنے والے کو سمجھ ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے فوری اور جامع پالیسی بنائی جائے ورنہ پاکستان عوامی تحریک حکومتی رویے اور دہشت گردی کے خلاف ملک میں احتجاج کرے گی۔ حکمران ہر محاذ پر ناکام ہوچکے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز پاکستان عوامی تحریک کی بیدارئ شعور مہم کے دوران اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز کے تنظیمی عہدیداران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت غیر ملکی طاقتوں کے ایما پر معرض وجود میں آئی ہے۔ اس لئے موجودہ حکمران دہشت گردی کی روک تھام کے لئے کوئی مضبوط پالیسی بنانے میں مخلص نظر نہیں آرہی اور نہ ہی یہ کام حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہے۔ دہشت گردوں کو بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے اور ان کو باقاعدہ فنڈگ ہوتی ہے تاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کیاجاسکے۔ لیکن پاکستان عوامی تحریک ان کے عزائم کوخاک میں ملادے گی۔

انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے دہشت گردی کے خلاف 600 صفحات کا فتوی دے کر پوری دنیا میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کی وکالت کا فریضہ سرانجام دیا ہے، اور یہ بات ثابت کی ہے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں اور مسلمانوں کا دہشت گردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا جاری کردہ فتوی اگر نصاب میں شامل کرلیا جاتا اور اس پر عمل درآمد کر لیا جاتا تو آج دہشت گردی کا کلیتاً خاتمہ کیا جا سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمران دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص نہیں ہیں۔ دہشت گردی کے ایشو پر بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس بے سود ثابت ہوچکی ہے۔ حکمران دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص نہیں ہیں یہ صرف ٹائم پاس کرنے اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل پیراہیں۔

تبصرہ