لندن کے علاقہ وولوچ میں ہونے والا واقعہ انتہائی قابلِ مذمت اور باعثِ افسوس ہے۔ اس اندوہناک واقعہ کی جس قدر بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ کسی بھی بے گناہ اور نہتے شخص کا اس طرح قتل کردیا جانا ایک گھناؤنا اقدام اور برطانیہ جیسے پرامن معاشرے کے سکون کو تباہ کرنے کی ایک سازش ہے۔ اس طرح کے بہیمانہ اقدام کرنے والے لوگ خواہ کسی بھی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہوں ان کو قرار واقعی سزا دیا جانا معاشرے کے امن اور سلامتی کے لئے بہت ضروری ہے۔ ان خیالات کا اظہار منہاج القرآن انٹرنیشنل برنلے کے ڈائریکٹر علامہ شمس الرحمان آسی نے گذشتہ دنوں برنلے سنٹر میں منعقدہ ہفتہ وار محفل میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام مسلم راہنماؤں کاان حالات میں اخلاقی و مذہبی فریضہ ہے کہ وہ آگے آئیں، کھل کر اس انسانیت سوز واقعہ کی مذمت کریں اور کمیونٹی کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔
اسلام کے ہر علم بردار کی یہ دینی ذمہ داری اب کئی گنا بڑھ چکی ہے کہ وہ اسلام کا پر امن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے واقعات ممکنہ طور پر اسلام دشمنی بھی ہو سکتی ہے تا کہ مسلم کمیونٹی کو بدنام کر کے ان کیلئے مشکلات پیدا کی جا سکیں۔ یہ امر یقینی ہے کہ دینِ اسلام امن و سلامتی کا پیامبر ہے اور حالیہ ظلم و بربریت کے واقعہ کا ذمہ دار دینِ اسلام یا کسی بھی مذہب کو ٹھہرانا قطعاً غلط ہو گا۔ چند مجرموں کے مکروہ افعال کی ذمہ داری کسی بھی مذہب پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ اس اندوہناک واقعہ کے پیچھے مغربی ممالک کی وہ خارجہ پالیسی بھی ہو سکتی ہے جس کے زیر اثر عراق، افغانستان اور وزیرستان وغیرہ میں ہزاروں مسلمانوں کا خون بہا، اس پالیسی پر نظر ثانی بھی ضروری ہے لیکن اس خارجہ پالیسی سے اختلاف کی آڑ میں برطانیہ کی سڑکوں پر کسی کو قتل کر دینے کو کسی طور بھی درست عمل خیال نہیں کیا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کی مختلف پالیسیوں سے اتفاق یا اختلاف اس کے شہریوں کا جمہوری حق ہے اور خود سفید فام لوگ بھی برطانیہ کی کئی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں۔ لیکن اس طرح کے کسی اختلاف کے سبب کسی بھی شہری کو قانون ہاتھ میں لینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ علامہ شمس الرحمان آسی نے کہا کہ ایسے لوگ اپنے انفرادی اعمال یا کردار کے خود ذمہ دار ہیں اور قتل جیسے گھناؤنے اقدام کے مرتکب لوگوں کو قرار واقع سزا ملنی چاہئے۔ البتہ ساری کمیونٹی کو موردِ الزام ٹھہرانا یا ساری کمیونٹی کو ایسے مکروہ افعال کا مجرم قرار دینا کسی طور پر بھی درست نہیں۔
رپورٹ: ابو ابرہیم (برنلے)
تبصرہ