ھیلی فیکس (شاھد جنجوعہ، نمائندہ اوصاف)
الیکشن کمیشن کی غیر آئینی و غیر قانونی تشکیل کے بعداپیل ٹرائبونل( Apail trabonal)میں بھی ہائیکورٹ کے حاضر سروس ججزکو چھوڑ کر سیشن کورٹ کے ریٹائرڈ ججزکو ایک سال کے کنٹریکٹ پر لیا گیا، جو سپریم کورٹ کی جوڈیشنل پالیسی2009 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ موجودہ چیف جسٹس کی بنائی ہوئی پالیسی کو پاؤں تلے روند کر ایسی حکومت کو لانے کی راہ ہموار کی گئی جو طالبان دوست ہو، اور پھر اس حکومت کی وساطت سے طالبان سے دنیا کا رابطہ بھی رہے اور کچھ ممالک کے خلاف ان کا اور عوام کا غیض و غضب ٹھنڈا کرنے کے لئے اندرونی اور بیرونی لابیز کام کرتی رہیں۔ ان خیالات کا اظہارمنہاج القرآن انٹرنیشنل یوکے اور یورپ کے کارکنان سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری نے کیا، انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے ارتقاء کے نام پر قوم سے تماشا کرنے والوں کو62\63اور218 پر عملدرآمد کا ٹیسٹ کرتے رہے، جیسے کسی بلڈنگ کی تیاری کے عمل میں ہر مرحلے پر strenght ٹیسٹ ہوتا ہے۔
جس الیکشن کمیشن کی تشکیل ہی خلافِ آئین ہوئی ہو وہ اس ملک کو شفاف انتخابات کیسے دے سکتا ہے؟ جب میں نے62\63 کے نفاد کی بات کی تومیرے خلاف ان کا شور ایسے ہی تھا جیسے ’’چور مچائے شور‘‘۔اگر تبدیلی اس نظام کے تحت ہونے والے انتخاب کے ذریعے آنی ہوتی تو سب سے پہلے ہم انتخابات میں حصہ لیتے۔ ہم نے تنہا اس نظام کو مسترد کیا جبکہ باقی سب اس کا حصہ بنے۔11مئی کو پاکستان عوامی تحریک کے تحت ملک بھر میں دھرنے ہوئے لیکن کسی ٹیلی ویژن چینل نے نہیں دکھایا ہم نے ناراضگی کا اظہارنہیں کیا، کیونکہ وہ انتخابات ووٹ ڈالنے کی اہمیت بتانا چاہتے تھے جو کہ (اُس وقت ) اُن کا بزنس تھا، اور انتخابات کے بعد (جو لوگ)دھرنا دے رہے ہیں میں بتانا چاہتا ہوں کہ ان دھرنوں سے (اب ) کچھ حاصل نہیں ہوگا، زخموں پر ’’جزوی ‘‘مرحم پٹی کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ نظام کبھی بھی ملک کو حقیقی جمہوریت نہیں دے گا۔گیارہ مئی کو بھی ہم تنہا تھے، ٹی وی چینلز کو بھی اوپر سے حکم تھا کہ کوریج نہ دی جائے، یہ ایک کاروبار ہے۔ہم نے شکوہ نہیں کیا۔ ہم نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، نظریہ نہیں فروخت کیا، ہم عجیب ماحول میں تنہا تھے، ساری پارٹیاں انتخابی طوفان میں ایک طرف تھیں، پاکستان عوامی تحریک ایک طرف تنہا کھڑی تھی۔ موجودہ کرپٹ اور’’ کھاؤ‘‘ سسٹم کو حقیقی معنی میں شفاف اور منصفانہ بننے میں رکاوٹ ڈالنے والے میرے خلاف جھوٹے پروپگنڈے ،طعن درازی اور نیت پر شکوک و شہبات کے جملے کستے رہے، میری جدوجہد صرف ایک خوشحال، خودمختار اور پائیدار پاکستان کا قیام ہے، میں نے اس مکارانہ نظام کے پروردہ چہروں پر آئین اور قانون کے بڑے منافقت کے پردے چاک کئے ہیں، میری باتیں سننے والے سن رہے ہیں مگر کسی میں جواب دینے کی جرات نہیں،سب گونگے، بہرے اس لئے بنے ہیں کہ وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر سکیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ کاش! عوام کی آنکھیں کُھلیں اور انہیں دیوار کے اُس پار مکرو فریب کے چہرے نظر آئیں، اگر سیاست میں پڑھنے لکھنے اور تجربہ کرنے کا عنصر شامل ہوجائے تو پاکستان میں حالات بدل جائیں، ان الیکشن ٹرائبونل میں اپیل سے کسی کو کچھ نہیں ملےگا، تبدیلی کا نعرہ لگانے والے آہستہ آہستہ سمجھوتے کرتے جائیں گے اور پھر صوبائی حکومت بچانے کے لئے تبدیلی کی آواز فقط نعرہ رہ جائے گی، اس قوم کے وہ افراد اور بیٹے، بیٹیاں جو تبدیلی چاہتے تھے، وہ تبدیلی کے نام پر ووٹ دینے لگے آج سڑکوں پر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔اور انہیں کوئی own نہیں کر رہا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے تبدیلی کے خواہشمند اپنے محب وطن پاکستانیوں کے جذبات کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا، کہ جب دھرنا دینے کا وقت تھا اس ملک کے لیڈر باہرنہیں نکلے آج ساری قوم جیتنے والے بھی اور ہارنے والے بھی سڑکوں پر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، جو 23 دسمبر سے لے کر 17مارچ تک ان کی کہی ہوئی ہر بات کی سچائی کا کھلا ثبوت ہے، قوم مان لے کہ اس نظام سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی،اس نظام کو ٹھکرانہ ہوگا، یہ نظام صرف خاندانوں اور مخصوص گھرانوں کے لئے ہے، اس سے کبھی نئی قیادت نہیں ابھرے گی، سارے اپنے اپنے لوٹ مار کے ایجنڈے کی تکمیل میں ہیں۔ آ ئندہ کی( نام نہاد) جمہوری حکومت میں کوئی سنجیدہ اپوزیشن نہیں ہوگی، ساری جماعتیں چوں چوں کا مربہ اور اسمبلیوں میں مفادات کا مک مکا ہوگا، جہاں پوری قوم دھرنوں کے حصارمیں فراڈ الیکشن پر سراپا احتجاج ہے، جبکہ غیر قانونی اور آئینی الیکشن کمیشن کے اراکین ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں، جبکہ قانون اور عدل کے راگ الاپنے والے تماشائی تالیاں بجا رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس موقع پر سیاسی جماعتوں پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ نظامِ حکومت کوئی ’’کرکٹ میچ‘‘ نہیں اس میں سنجیدہ پڑھے لکھے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہی ہے جو غلط روایات کو تحفظ نہ دیں مگر یہاں ایک جماعت نے 149 ایسے افراد کو ٹکٹ دیئے جن کی لوٹا کریسی کی کہانیاں ہر زبان پر عام تھیں۔ عوام کا دشمن اپنا انتخابی نظام ہے جس نے پورے ملک، عوام اور سیاسی جماعتوں کو شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ہر بار وہی ٹیکس چور، جعلساز اور فراڈیئے، بددیانت الیکشن کمیشن سے ’’ پاس‘‘ کا سرٹیفکیٹ حاصل کرکے دھونس اور دھاندلی سے پھر منتخب ہو جاتے ہیں اور متوسط طبقات کے پڑھے لکھے نوجوان شرافت اور اہلیت کا لباس پہنے ان کا مُنہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی جھگڑا ہے نہ ذاتی عناد، میری جدوجہد ہر اس نظام کی تبدیلی کے لئے ہے جس میں عوام کے حقوق غصب کرنے اور قومی دولت کو باپ کی جاگیر سمجھ کر لوٹنے وا لے پا رٹی بدل بدل کر واپس اسمبلی میں آجاتے ہیں۔سیشن کورٹ کے ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل ٹرائیبونل آئین اور قانون کے دعوے داروں کی ناک کے نیچے بنے، مگر جنھوں نے پیسہ کھایا ہو ان کا کردار ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ فقط جوڈیشنل پالیسی بناتے ہیں عملدرآمد نہیں کرواتے۔
اس موقع پر کارکنان نے ڈاکٹر طاہر ا لقادری سے سوال کیا کہ آپ کے پاس یہ معلومات کیسے پہنچتی ہیں، جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس ملک میں سینکڑوں ججز، لائرز، اہلِ دانش اور محب وطن ٹیکنوکریٹس ان کے شاگرد ہیں اور وہی ان کی آنکھیں اور کان ہیں، جنھیں اس ملک کے غریب عوام کا درد ہے، جو چاہتے ہیں کہ حالت بدلیں، مگر یہاں ظلم اور مک مکا ہے، جسے ہم نے اللہ اور عوام کی مدد سے دریا برد کرنا ہے۔ڈاکٹر طاہرلقادری کے اس خطاب کو سننے کے لئے کارکنان، اور محب وطن پاکستانیوں کے ھیلی فیکس، بریڈفورڈ، برمنگھم،گلاسگو، لنڈن، والسال، شیفلڈ، نیلسن، لیڈز، آئیرلینڈ کے علاوہ دوسرے کئی یورپی ممالک کے نمائندگان شریک تھے۔
تبصرہ