محبت کے راستے پر چلنے کی ابتدا توبہ سے ہوتی ہے۔ فیض الرحمن درانی

نظر آنے والے گناہوں کا علاج نظر آنے والے نیک اعمال سے کیا جاتا ہے
معاشرے کا سکون اس لئے اجڑ گیا کہ غالب ترین اکثریت کے دلوں پر نفس کا قبضہ ہو چکا
رات کی تاریکی میں مصلے سے دوستی لگا کر اللہ سے معافی مانگنا برے اعمال سے چھٹکارے کی واحد سبیل ہے
برے خیالات کی گرفت نہ کی جائے تو بری فطرت تک لے جاتے ہیں
صاحبزادہ فیض الرحمن درانی کا جامع المنہاج ماڈل ٹاؤن میں جمعہ کے بڑے اجتماع سے خطاب

دل کے گھر کو محبت الہٰی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معمور کرنے کی جدوجہد ہر مسلمان کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ محبت کے راستے پر چلنے کی ابتدا توبہ سے ہوتی ہے۔ سابقہ گناہوں کا اعتراف کر کے گریہ و زاری اور ندامت و شرمندگی سے اللہ سے معافی مانگنا اور گناہوں سے ہمیشہ کیلئے برات کرنا توبہ ہے۔ اللہ کے حضور عام مسلمان کا اعتراف گناہ کرنا توبہ کہلاتا ہے، جبکہ اولیاء کرام اور عرفاء کی توبہ ’’انابہ‘‘ کہلاتی ہے اور انبیاء کرام کی توبہ کو ’’اوبہ‘‘ کہتے ہیں۔ نظر آنے والے گناہوں کا علاج نظر آنے والے نیک اعمال سے کیا جاتا ہے۔ رات کی تاریکی میں مصلے سے دوستی لگا کر اللہ سے معافی مانگنا اور گریہ و زاری کرنا ہی برے اعمال سے چھٹکارے کی واحد سبیل ہے۔

ان خیالات کا اظہار تحریک منہاج القرآن کے مرکزی امیر صاحبزادہ فیض الرحمن درانی نے جامع المنہاج ماڈل ٹاؤن میں جمعہ کے بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ اولیاء کرام کی توبہ اللہ کی خوشنودی اور رضا کے حصول کیلئے اور انبیاء کا یہ عمل صرف اللہ کے حکم کی بجا آوری کیلئے ہوتا ہے۔ جبکہ عام مسلمان توبہ گناہوں سے نجات کیلئے کرتے ہیں۔ ہر شخص کو چاہیے کہ ہمہ وقت اپنا محاسبہ جاری رکھے اور برے خیالات کے آنے کو معمولی نہ سمجھے۔ اس پر محاسبہ کرے کہ بُرا خیال کیوں آیا؟ اگر اس پر تشویش نہیں ہو گی تو خیال تصور میں بدلے گا، تصور عمل کا روپ دھارے گا، برے اعمال سے توبہ نہ کی تو وہ عادت بن جائیں گے اور بری عادات انسان کی فطرت بن جائیں گی۔ برے خیالات کی گرفت نہ کیجائے تو بری فطرت تک لے جاتے ہیں۔

صاحبزادہ فیض الرحمن درانی نے کہا کہ انسان کا دل تخت کی مانند ہے۔ نفس اور روح اس پر قبضہ کرنے کیلئے برسر پیکار رہتے ہیں۔ اگر دل پر نفس کا قبضہ ہو جائے تو اعمال نفس کے تابع ہو جائیں گے اور گناہ سرزد ہوں گے اور اگر دل پر روح کا قبضہ ہو جائے تو نیک اعمال بلاارادہ ہو جائیں گے اور معاشرے کیلئے وہ بندہ سلامتی اور خیر کا باعث بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے کا سکون اس لئے اجڑ گیا کہ غالب ترین اکثریت کے دلوں پر نفس کا قبضہ ہو چکا اور المیہ یہ ہے کہ اس قبضے سے نجات کا شعور بھی اٹھ گیا ہے۔ توبہ ہی وہ واحد راستہ ہے جو قلب بیمار کو صحت یاب کر سکتا ہے۔ دل سے نفس کا قبضہ چھڑانے کیلئے روح کو طاقتور کرنا ہو گا اور یہ توبہ اور ریاضت و مجاہدہ کے بغیر ممکن نہیں۔

تبصرہ