ملین مارچ کا یہ اجتماع امن پسند ہے۔ حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں پاکستان کی سلامتی کے لیے کوئی پالیسی ہی نہیں بنائی : ڈاکٹر طاہرالقادری

ہماری جدوجہد جمہوریت کی بحالی، عوام کو اقتدار کی منتقلی، قانون کی حکمرانی اور عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے ہے۔
صرف ایک فیصد طبقہ ملکی وسائل پر قابض ہے اور ننانوے فیصد لوگ وسائل سے محروم غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
مخالفین نے میرا تعلق امریکا اور برطانیہ سے جوڑا، خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے خود اس کی تردید کر دی۔

اسلام آباد میں لانگ مارچ کے لاکھوں شرکاء کی موجودگی میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک پر اپنا افتتاحی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملین مارچ کا یہ اجتماع امن پسند ہے اور یہ یہاں اپنے حقوق کے حصول اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ ہم کوئی غیر جمہوری کام نہیں کریں گے، کیونکہ ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں۔ میں آج ثابت کروں گا کہ موجودہ حکومت کس طرح غیر آئینی و غیر جمہوری اور نااہل ہے۔ اس حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں پاکستان کی سلامتی کے لیے کوئی پالیسی ہی نہیں بنائی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا۔ یہ پارلیمنٹ مکمل طور پر کاغذی کارروائی بن کر رہ گئی ہے۔ آج ملک میں عوام کے بنیادی حقوق تک معطل ہیں۔ عوام کے کھانے کے لیے روٹی ہے نہ پینے کے لیے صاف پانی؛ امن و انصاف ہے نہ زندگی کی بنیادی سہولت میسر ہیں۔ گویا عوام سے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ ہم ملک میں انارکی اور بدامنی نہیں پھیلانا چاہتے۔ ہماری جد و جہد جمہوریت کی بحالی، عوام کو اقتدار کی منتقلی، قانون کی حکمرانی کے قیام اور عوام کو ان کے بنیادی حقوق دینے کے لیے ہے۔ ہم جمہوری نظام، سیاسی جماعتوں اور ایک آزادانہ نظام انتخاب میں رہ کر یہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ آج بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ ملین مارچ یہاں کیوں کر رہے ہیں؟ میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اس ملک میں جمہوریت کا استحکام اور عدل و انصاف چاہتے ہیں۔

آج ملکی میڈیا پر یہ بحث چل رہی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیچھے کون ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ تمہاری ایجنسیاں کہاں ہیں جو ایک ماہ سے یہ بھی معلوم نہیں کر سکیں کہ میرے پیچھے کون ہے۔ کبھی دعوی کیا جاتا ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اس پر فوج نے واشگاف الفاظ میں تردید کر دی ہے۔ کبھی تم نے میرا تعلق امریکا اور برطانیہ سے جوڑا، خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے خود اس کی تردید کر دی۔ تم ایک سال بھی برباد کرو گے تو تمہیں پتہ نہیں چل سکے گا کہ میرے پیچھے کون ہے۔ آج میںخود بتاتا ہوں کہ میرے پیچھے وہ ذات ہے جو نظر نہیں آتی ہے۔ وہ رب ذوالجلا ل ہے، میرے پیچھے خدا اور مصطفیٰ ہے۔ میرے پیچھے اٹھارہ کروڑ عوام، جوان، قوم کی بیٹیاں اور اس بہادر قوم کے سپوت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ تحریک عدلیہ کی آزادی کی تحریک ہے۔ ہم عدلیہ کے فیصلوں پر عمل کرانا چاہتے ہیں۔ محترم نواز شریف کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو مارچ کے لیے نکلیں تو وہ جائز تھا۔ آج ڈاکٹر طاہرالقادری عوام کے حقوق کی خاطر تاریخ کا سب سے بڑا مارچ کر رہا ہے تو یہ ناجائز ہے۔ جو لوگ ٹی وی کے ذریعے میری آواز سن رہے ہیں وہ اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر یہاں آ جائیں، پھر دیکھتے ہیں کہ یہ یزیدی حکمران کیسے اپنی جگہ بیٹھے رہتے ہیں۔ میں یہاں گولی اور بندوق سے لڑنے نہیں آیا اور نہ میں غیر جمہوری و غیر آئینی اقدامات پر یقین رکھتا ہوں۔ میرے پاس صرف امن کا اسلحہ ہے۔ میں نے کل مہلت دی تھی کہ حکمران خود فیصلہ کر لیں ورنہ آپ لوگ کل دوگنا ہو جائیں گے اور پرسوں چار گنا ہو جائیں گے۔ پھر دیکھیں گے کہ یہ کیسے اپنے اقتدار کی مسند پر براجمان رہتے ہیں۔ آج جتنے حکمران گزشتہ 25 سال سے سیاست میں ہیں، اس عرصہ میں ان کا سرمایہ اور دولت ایک ہزار گنا بڑھ چکا ہے۔ انصاف، ترقی، قانون، علاج، معالجہ اور روزگار عوام کی ضرورت ہے، جب کہ حکمرانوں کی ضرورت عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان سے محروم رکھنا ہے۔ حکمرانوں کا مقصد عوام کو خوشحالی، روزگار، تعلیم اور امن سے محروم رکھنا ہے تاکہ عوام حکمرانوں کے مقابل نہ آجائیں۔ آج صرف ایک فیصد لوگ سارے ملکی وسائل پر قابض ہیں، ننانوے فیصد لوگ وسائل سے محروم اور غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟ اس لیے کب تک عوام اس ظلم اور اندھیری رات کے خلاف خاموش رہیں گے؟ ہم پرامن طریقے سے اپنا جمہوری حق لے کر واپس جائیں گے۔ ہم روز یہاں اپنا دھرنا جاری رکھیں گے۔ اللہ کی عزت کی قسم! میں خود کوئی اختیار لینے نہیں آیا، بلکہ میں عوام کو اختیار دلوانے آیا ہوں۔ اگر کوئی ایک شخص بھی واپس چلا گیاتو پھر روز آپ کو طاہرالقادری نہیں ملیں گے۔

تبصرہ